انیس سو اکسٹھ میں برطانیہ کی یونیورسٹی کے پروفیسر اینٹی ہیوش ایک خلائی تحقیقاتی ادارے میں کام کر رہے تھے کہ جہاں دنیا کی سب سے ایڈوانس ریڈیو ٹیلی سکوپ ہے، اور یہ ٹیلی سکوپ خلا سے آنے والے الیکٹرومیگنٹک سگنلز کو رسیو کرسکتی ہے اپنی تحقیق کے دوران اچانک انہوں نے کچھ ایسے عجیب و غریب سگنلز کو دیکھا جو کہ کسی خلائی مخلوق کے کسی پیغام جیسے لگ رہے تھے اور ایسا اس لئے تھا کہ یہ سگنلز کسی دل کی دھڑکن کی طرح دکھائی دینے والی ای سی جی جیسے اپ اینڈ ڈائون تھے ۔پروفیسر بہت حیران ہوئے کہ آخر کیا چیز ہے مگر جب اس پرریسرچ کی گئی تو دنیاکو پہلی بارنیوٹران ستارے کے بارے میں پتہ چلا اور یوں پہلے نیوٹران ستارے کی دریافت ہوئی ۔نیوٹران ستارہ دل کی دھڑکن کی ای سی جی جیسے سگنلز بھیج رہا تھا اور اس طرح کے سگنل بھیجنے کے پیچھے اس ستارے کی بناوٹ تھی۔ اسکو سمجھنے کے لیے آپ کو یہ جاننا ہو گا کہ نیوٹران ستارہ دراصل ہوتا کیا ہے.دراصل کائنات میں موجود ہر ایک زندہ شئے کو موت آتی ہے جن میں ستارے بھی شامل ہیں۔ جب کوئی بہت بڑا ستارہ یعنی ریڈ سپر جائنٹ اپنا فیول استعمال کر کے ایک بڑے سپر نووا دھماکے سے پھٹتا ہے تو ایک بہت بڑے بلیک ہول میں بدل جاتا ہے اور اگر یہ ستارہ درمیانے درجے کا ہو جیسا کہ ہمارے سورج ہے تو یہ پھٹ کرایک نیوٹران سٹار میں بدل جاتا ہے جو کہ ایک عجیب طرح کی لائٹ بیم کو خارج کرتا ہے ۔اسکو پلسر سٹار PULSAR STAR بھی کہا جاتا ہے۔جسکا مطلب ہے مسلسل آواز پیدا کرنے والا۔ اس کی روشنی کائنات میں بہت دور تک جاتی ہے اور ستارہ کائنات کے اندر نظر آنے والا بہت ہی بڑا اور باآسانی نظر آنے ولاآبجیکٹ ہوتا ہے اس کے ساتھ ساتھ اس کا پھیلائو بھی بہت بڑھ جاتا ہے کیونکہ جن ایٹمی قوتوں ملکر وہ ستارہ بنا ہوتا ہے وہ سب قوتیں ایک ساتھ مل کر بے تحاشا کشش کی وجہ سے ایک تنگ جگہ کے اندر کر سمیٹ کر اس کا سائز تو بہت چھوٹا کر دیتے ہیں مگر اس کا پھیلائو بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے اتنا زیادہ کہ آپ اسکا کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ فرض کریں کہ نیوٹرن سٹار کا ایریا صرف 30 کلو میٹر ہے تو صرف اس تیس کلومیٹر کے ستارے کا پھیلائو ہمارے سورج کے برابر ہوگا اور یاد رکھیں کہ ہمارا سورج ہماری زمین کے مقابلے میں 13 لاکھ گنا بڑا ہے.اگر صرف ایک کھانے کا چمچ نیوٹرن سٹار کا حجم آپ کے پاس ہو تو یہ زمین پر موجود مانٹ ایورسٹ پہاڑ کے پھیلائو کے برابر ہوگا یعنی دس ملین ٹن سے بھی زیادہ ۔ اور اس کی دوسری بڑی خاصیت ہے اس کی خوفناک حد تک تیز ترین رفتار ۔۔کیوں کہ یہ صرف ایک ملی سیکنڈ کے اندر کئی سو مرتبہ گھوم سکتا ہے اور اسی وجہ سے ہمیں دل کی دھڑکن کی طرح کے سگنل ملتے ہی اس سے بھی بڑھ کر اس کی آوازبے حد خوفناک ہے ۔سپیس میں چونکہ سائونڈ ویو ز یعنی آواز کی لہریں سفر نہیں کر سکتیں کیونکہ ان کے لئے کوئی میڈیم موجود نہیں ہے لیکن کچھ جدید آلات کی مدد سے الیکٹرومیگنیٹک ریز کو جب آواز کی لہریوں میں تبدیل کیا گیا تو پلسر سٹار کی کچھ ایسی آوازیں سننے کو ملیں کہ جسے سن کر انسان کے ہوش گم ہو جائیں اور اس آواز سے ستارے کی سپیڈ کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔کیونکہ اس ستارے کی آواز ایسی ہے جیسے کہ کوئی شخص وحشیانہ انداز میں دروازے کو مسلسل پیٹ رہا ہو۔اور اسی وجہ سے اسکا نام پلسر سٹار رکھا گیا ۔ اس کا مطلب ہے لگاتار آواز پیدا کرنے والا۔

انسان اب تک زمین پر موجوجوسب سے زیادہ وزنی شئے ایک ہی جگہ پرمحدود ایریا میں بناپایا ہے وہ ناسا کی سب سے بہترین رولنگ سروس سٹرکچر ہے یہ فلوریڈا میں موجود ایک لانچنگ پیڈ ہے کہ جہاں کسی بھی سپیس راکٹ یا کسی بھی سیٹلائٹ یا کسی او ر آبجیکٹ کو یہاں رکھ کر خلا میں بھیجا جاتا ہے اور گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق اس کا وزن 5.3 ملین پائونڈ یا 2423 ٹن ہے ۔ اگر وزن کی ہی بات کی جائے تو گریٹ وال آف چائنا (دیوار چین )کا وزن دس کروڑ ٹن ہے اور یہ زمین پر موجود انسانوں کا تیار کردہ سب سے بھاری سٹرکچر ہے ۔ان تمام سٹرکچرز کو دیکھا جائے تو ان میں ایک بات مشترک ہے وہ یہ کہ جتنے بڑے وزن کی کوئی چیز زمین پر ہو گی اس کا سائز بھی اتنا ہی بڑھتا جائے گا ۔اور اگر ہمیں کسی ایسی چیز کی تلاش ہے جس کا سائزتو انتہائی کم ہو پر اس کا پھیلائو اور وزن سب سے زیادہ ہو تو یقینا ہم واپس نیوٹران ستارے کی طرح لوٹ کر آئیں گے انسانوں نے کائنات میں اس طرح کا سٹرکچرپہلے کبھی نہیں دیکھا تھا بلکہ اس کے بارے میں تصور کرنا بھی مشکل تھا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کا ذکر تو ساڑھے چودہ سو سال پہلے سے موجود تھا لیکن ہم اس بات سے انجان تھے۔

آج کے نفسانفسی کے دور ابتلاء میں کسی بھی شخص کا حق مارنا یعنی زمین جائیداد یا مکان وغیرہ پر ناجائز قبضہ کرنے کو ایک عام سی بات سمجھا جاتا ہے ۔حالانکہ یہ عمل اللہ کی نظر میں سخت ناپسندیدہ ہے۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث مبارک ہے کہ جو شخص کسی شخص کی زمین یا جائیداد پر ناجائز قبضہ کرے گا تو قیامت کے دن اس کی گردن میںطوق ڈالا جائے گا جس کا وزن سات زمینوں جتنا بھاری ہوگا اب اگر آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے احادیث کی لاجک کے مطابق اس کا ثبوت ڈھونڈنے کی کوشش کی جاتی تو انسان شاید اس بات کو کبھی بھی نہیں سمجھ پاتے کہ کیسے ایک انسان کے گلے کے اندر اتنا بھاری طوق ڈالا جا سکتا ہے جس کے سائزتو اتنا چھوٹا ہو کہ وہ گردن تک آ جائے مگر یہ اتنا بھاری ہو کہ اس کا وزن سات زمینوں کے برابر ہو اور اس کی وجہ سے وہ ہل بھی نہ سکے تو اسے سمجھنے کے لئے انسان کوانیس سو ساٹھ کی دہائی تک کا انتظار کرناپڑتاکہ جب انسانوں کو پہلی بار نیو ٹران سٹار کے بارے میں پتہ چلا.اوریہ تو صرف شروعات ہے پہلے تو انسانوں کے لیے ایسا کوئی آبجیکٹ تصور کرنا ہی ممکن نہیں تھا ،لیکن آج کی سائنس نے ہماری مشکل کو سمجھنے کے لیے آسان کر دیا۔ سائنس کے مطابق خلا میںموجود بلیک ہول میں پایا جانے والا میٹل اتنا پیچیدہ ہے کہ اس کا صرف ایک چمچ ایک پوری زمین کے وزن کے برابر ہے

اللہ اکبر

کسی کی زمین کو ناجائز طور پر دبانے یا اس پر قبضہ کرنے والا شخص قیامت کے دن اس طوق کی وجہ سے چل نہیں پائے گا اور یہ اس کے باقی گناہوں سے ہٹ کر صرف اس گناہ کا عذاب ہوگا جو کہ اس نے دنیا میں رہتے ہوئے لوگوں کی زمینوں پر ناجائز اور ناحق قبضہ کے صورت میں کیا ہوگا۔ممکن ہے کہ وہ دنیا کی عدالت سے تو شاید بچ جائے لیکن اللہ کی عدالت سے اسکو یہی خوفناک عذاب ملے گا۔ بیسویں صدی کی عظیم ترین دریافت کا ذکر قرآن کریم کی سور الطارق کے اندر کچھ اس طرح سے موجود ہے کہ جس میں اللہ نے فرمایا ہے کہ :قسم ہے رات کے وقت نمودار ہونے والے کی اور تم کیا جانوکہ وہ رات کے وقت نمودار ہونے والا کیا ہے،ایک روشن ستارہ۔: پلسر سٹار کی نارتھ اور سائوتھ پال کی بے انتہا روشنی اندھیرے میں دور دور تک جاتی ہے اور اس کو چمکتے ہوئے ستارے کے طور پر کائنات میںواضح طور پر دیکھاتی ہے یا پھر رات کے وقت نمودار ہونے والا بلیک ہول جو کہ اپنی شدید ترین کشش کی وجہ سے روشنی کو بھی نگل لیتا ہے اور جہاں پر یہ موجود ہو وہاں پر دور دور تک صرف اندھیرا ہوتا ہے یہ دونوں خاصیت ہی اس آیت مبارکہ پر پوری اترتی ہیں اور پھر حدیث مبارکہ کے اندر اس کا واضح طور پر دو ٹوک ذکر ان کی بناوٹ کو بیان کرتا ہے ۔
کیا آج کی اکیسویں صدی کی ٹیکنالوجی میں جدید ترین ٹیلی سکوپ کی مدد کے بغیر کوئی انسان عرب کے صحرا میں رہتے ہوئے چودہ سو سال پہلے یہ بات جان سکتا تھا؟؟ لیکن اللہ تبارک وتعالی نے اپنے محبوب نبی کریم حضرت محمد ۖ کے ذریعے سے یہ سب ہمیں پہلے ہی بتا دیا اور یقینا یہ سب کچھ وہی ذات جانتی ہے جو کہ اس کائنات کو پیدا کرنے والا اس کا خالق اور مالک ہے اور وہ کسی سے غافل نہیں۔
انسانوں کو اب تک لگتا تھا کہ ایٹم دنیا اورئنات کے اندر کسی بھی چیز کی اکائی ہے یعنی ایٹم سے ملکر دنیا اورکائنات کی ہر چیز بنی ہے اس سے چھوٹا کچھ نہیں ہوتا لیکن ایٹم کے سٹرکچر کامعائنہ کرنے کے بعد یہ پتہ چلا کہ اس کے اندر بھی کو اکس اور اس سے بھی چھوٹے پارٹیکلز یعنی ایسے ذرات موجود ہیں کہ جنکو سٹرنگس کہتے ہیں یہ باریک ترین دھاگوں کی شکل جیسے ہوتے ہیں اور ہر وقت حرکت کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے اس چیز کا وجود برقرار رہتا ہے
اللہ پاک نے سورت النساء میں فرمایا ہے کہ
: کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا کہ جو اپنے تئیں تو خود کوپاک کہتے ہیں لیکن وہ ہیں نہیں، اللہ جس کو چاہتا ہے پاک کر دیتا ہے اور ان لوگوں پر دھاگے کے برابر بھی ظلم نہیں ہوگا۔:
یعنی اللہ تبارک وتعالی یہ سمجھا رہے ہیں کہ اللہ پاک کائنات کے چھوٹے سے چھوٹے اسٹرکچر یعنی دھاگے نماء سٹرنگ کے برابر بھی کسی انسان سے نا انصافی اور ظلم نہ دنیا میں کرے گا اور نہ ہی آخرت میں۔ کیا یہ چیز ہمیں خالق کی موجودگی کو ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں ہے؟سورہ الزمر میں اللہ پاک فرماتا ہے کہ
: ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہیں کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق تھا اور اس کی بڑائی کا یہ حال ہے کہ قیامت کے دن زمین اس کی مٹھی میں ہوگی اور تمام آسمان اس کے سیدھے ہاتھ میں ہوں گے.:
یاد رکھیں کہ آج کی سائنس ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جس یونیورس کائنات کو ہم دیکھتے ہیں وہ ایک ایسے کپڑے کی طرح ہے جو کہ بالکل سیدھا تنا ہواہے ۔اگر ہم کسی سیدھے تنے ہوئے کپڑے کے درمیان میں کہیں کوئی چیز رکھ دیں تو وہاں ایک گڑھا سا پڑ جائیگا اور جو چیز جتنی بڑی ہوگی اسکا گڑھا یعنی اسکی کشش بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔
اور اگر اسکے گرد کوئی چیز رکھی جائے تو وہ گڑھا یعنی کشش اس چیز کو بھی اپنے اندر کھینچ لے گی لیکن ایک وقت ایسا آئے گا جب اس خلا جیسے کپڑے کو لپیٹ کر ایک نقطے میں واپس کر دیا جائے گا کہ جہاں سے اس کی شروعات ہوئی تھی۔ کیونکہ بگ بینگ کے بعد سے جب سے دھماکہ ہوا اس کا اثر ابھی تک باقی ہے اور یہ کائنات ابھی بھی پھیل ہی رہی ہے اور جس دن اس دھماکے کا اثر مکمل ہوگا ویسے ہی کائنات کی واپسی کا عمل شروع ہو جائے گا ،بالکل ایک پھولے ہوئے غبارے کی طرح جو ہوا نکلنے کے بعد واپس اتنا ہی ہو جاتا ہے کہ جتنا وہ پہلے تھا۔اور اسی لیے قیامت کے روز تمام آسمان اللہ کے سیدھے ہاتھ میں اور زمین اس کی مٹھی میں ہوگی اور یہی ہے
اللہ اکبر کا اصل مطلب۔

Menu