ہرسیاسی پارٹی اپنا بیانیہ بناتی ہے کبھی وہ بیانیہ عوام میں مقبول ہوتا ہے کبھی نہیں ہوتا کبھی لوگ اس کو مانتے ہیں کبھی نہیں مانتے اسی طرح حالات کے مطابق عدالتی فیصلوں کو دیکھتے ہوئے پولیٹیکل پارٹیز ان فیصلوں کے پربھی اپنی رائے قائم کرتی ہے لیکن پاکستان میں ایک نیا کام شروع ہو گیا ہے عدالتوں کی آبزرویشن یا اپنے کیس کی کمزوری کو دیکھتے ہوئے عدالتوں ہی کے اوپر چڑھائی شروع کر دی جاتی ہے اور ایسا ایک پولیٹیکل پارٹی نہیں کر رہی مختلف پولیٹیکل پارٹیز کرتی ہیں لیکن سب سے زیادہ اس کی عادت مسلم لیگ نون کو ہے مسلم لیگ نون اداروں کی ایسی لاڈلی جماعت رہی ہے جو ججز کو فیصلے لکھواتی آئی ہے ججز فیصلے لکھتے رہے اور کرتے رہے، انہوں نے ہمیشہ سے وہ چیزیں حاصل کی ہیںجو پاکستان میں قانون کسی اور کو نہیں دیتا مثال کے طور پر نواز شریف کا پچاس روپے کا اسٹامپ پیپر پر پاکستان سے باہر چلے جانا ایک ایسی چیز ہے جس کی مثالیں پاکستان کے اندر دی جاتی ہیں کہ ایسا پہلے نہیں ہوا کہ سزا یافتہ مجرم کو جیل سے نکالا جائے اور پاکستان سے باہر بھجوا دیا جائے۔ بہت سارے ججز ماضی میں ایسے ہیں جو فیصلے لکھتے رہے ہیں ٹیلی فونوں پر فیصلے لکھے جاتے رہے اور پھر انہیں فیصلوں کو سنادیا جاتا تھا ۔ مسلم لیگ ن کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ جب انہیں سمجھ آ جائے کہ فیصلہ ان کے خلاف آنے جا رہا ہے تو وہ بنچ پر عدلیہ پر ججزپر پرسنل حملہ کرنے سے بھی باز نہیں رہتے۔ پہلے آپ یہ دیکھیں کہ بیانیہ بدلتا کیسے ہے اور ایک ہی وقت میں ایک دو دنوں کے اندراندر بدل جاتا ہے ۔یہ کبھی کہتے ہیں کہ ہمیں ڈرایا گیا کہ فلاں شخص فلاں کرسی کے اوپر آکر بیٹھ جائے گا سادی بات کروں تو جنرل فیض آکر آرمی چیف بن جائیں گے ہمیں ڈرایا گیا اس بات سے اور اس وجہ سے ہم تحریک عدم اعتماد لیکر آئے.کبھی کہتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد اسلیے لیکر آئے کہ پاکستان تباہ ہو رہا تھا ہم نے پاکستان کو بچانا تھا اپنی سیاست نہیں بلکہ اپنی ریاست کو بچانے آئے تھے.کبھی کہتے ہیں کہ عدالتیں آزاد ہیں اور درست فیصلے کر رہی ہیں انصاف پر مبنی فیصلے ہو رہے ہیں کبھی کہتے ہیں کہ ہمای مرضی کا بینچ بنا دو اگر وہ نہیں بنتا تو پھر فیصلہ نہیں مانیں گے۔ یہ بھی یہی کررہے ہیں کبھی کہتے ہیں کہ مشکل فیصلے ہم سے کروائے گئے اور پھر ہمیں الیکشن کے اندر دھکیل دیا گیا مشکل فیصلوں کا الزام اوراشارہ تو اسٹبلشمنٹ کی طرف ہے کہ ہم سے مشکل فیصلے کروا کر ہمیں ضمنی انتخابات کیطرف دکھیل دیا گیا پھر کبھی کہتے ہیں کہ ہم نے مشکل فیصلے خود کیے تھے اور قوم سب جانتی ہے کہ ہمیں کیوں کرنے پڑے.پھریہ بھی کہتے ہیں کہ پرویز الہی صاحب آئیے اورہماری پارٹی کے امیدوار بن کر وزیر اعلی پنجاب بن جائیے، پھر کہتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو پرویز الہی کو وزیر اعلی پنجاب بنایا جارہا ہے۔یعنی آپ اس کو اپنا امیدوار بنانا چاہتے ہیں تو ٹھیک ورنہ وہ سب سے بڑے ڈاکو۔۔ اور کبھی کہتے ہیں کہ عمران خان کی نالائیقیوں کی قیمت عوام مہنگائی کی صورت میں بھگت رہی ہے تو کبھی کہتے ہیں کہ پاکستان میں مہنگائی عالمی منڈی میں مہنگائی کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ یہ تو کہیںٹکتے ہی نہیں کبھی عمران خان پر ڈالتے ہیں کبھی عالمی منڈی پر ڈالتے ہیں کبھی کہتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی بھی لوٹا نہیں ہے اس لیے کہ وہ حکومت کو چھوڑ کر اپوزیشن کے ساتھ آئے تھے ۔او ر ضمنی الیکشن ہارنے کے بعد یہ کہتے ہیں کہ اگرلوٹے نہ آئے تو سارے الیکشن جیت جاتے یعنی مانتے ہیں کہ یہ سارے کے سارے لوٹے تھے لیکن جب وہ آپ کے پاس آ رہے تھے تو وہ لوٹے نہیں تھے لیکن جب الیکشن میں ہار رہے تھے تو لوٹے تھے ۔کبھی کہتے ہیں کہ ہم اداروں کے کردار سے مطمئن ہیں ادارے بالکل ٹھیک ڈائریکشن میں جا رہے ہیں اور ایسے ہی کام کرنا چاہیے پھر بھی کہتے ہیں کہ ادارے اپنے دائرہ کار سے باہر نکل کر حد سے تجاوز کر رہے ہیں عجیب و غریب قسم کا بیان ہے جو کسی جگہ ٹکتا ہی نہیں یہ پرابلم سب سے زیادہ مسلم لیگ نون کے ساتھ ہو رہی ہے لیکن انکے ساتھ کیوں ہو رہی ہے کیونکہ جب آپ سازش کر کے چور دروازے سے اقتدار میں آتے ہیں تو.تو یہ نتیجہ نکلتا ہے ۔آپ کا بیانیہ لٹ چکا ہے، پٹ چکا ہے لوگ متنفر ہیں، ناراض ہیں ،اور عوام آپ کو اب وہ نہیں سمجھتے کہ جو پہلے سمجھتے تھے اور آپ سے امید لگائی ہوئی تھی
اب بات کرتے ہیں کہ لاہور میں کیا ہوا پی ایم ایل این کے ساتھ.یہ دیکھیے کہ پاکستان تحریک انصاف کال نہ بھی دے عمران خان کال نہ بھی دے تب بھی ہفتے اور اتوار والے دن اتنی بڑی تعداد میں لوگ لبرٹی چوک جمع ہو جاتے ہیں کہ پاک کا درمیان والا حصہ سارا بھر جاتا ہے جو سڑک کاوہ حصہ جو کہ نورجہاں کی کوٹھی کی طرف جاتاہے وہ اور پلازہ کی طرف بہت سارا علاقہ لوگوں سے بھر جاتا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ وہاں جمع ہو جاتے ہیں یہ سب بغیر کال کے آتے ہیں اور جب عمران خان صاحب کال دیتے ہیں تو پھر لبرٹی چوک چاروں طرف سے مکمل طور پر بھر جاتا ہے پھر کھڑے ہونے کی جگہ موجود نہیں ہوتی اور وہاں کے رہائشی بھی اگر اپنے گھروں کو جانا چاہیں تو ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ حمزہ شہباز وزیراعلی پنجاب بنے تواس مرتبہ پی ایم ایل این نے کال دی ۔یہ سب وہاںاکٹھے ہوئے لیکن حیرت کی بات ہے کہ وہ خراماں خراماں لوگ موجود تھے۔ ٹریفک بھی بند نہیں ہو سکی لوگوں کی گاڑیاں گزرتی ہیں اور وہاں پر جو جلسہ کیا گیا اس میں مسلم لیگ نون کی ساری قیادت موجود تھی لاہور کی تگڑی اور ساری قیادت اورجو بڑے بڑے لوگ ہیں لاہور کے وہ سارے موجود تھے اس کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ لاہور میں ان کی تعداد کم ہو رہی ہے۔اسکے مقابل اگر پاکستان تحریک انصاف کو دیکھتے ہیں تو لگتا ہے ان کے لوگ زیادہ مقبول ہو رہے ہیں۔ لاہور میں پاکستان تحریک انصاف نے اپنی لیڈرشپ پیدا کر دی ہے اور ن لیگ نے بدقسمتی سے اپنے لیڈرشپ کھودی ہے اور یہ ہوتا کیوں ہے؟ جب سارے کے سارے فیصلے جاتی امراء سے ہوتے ہیں اور کوشش ہوتی ہے کہ گھر سے باہرکسی کو بڑا عہدہ نہیں دینا تو پھر کوئی بھی لیڈر نہیں بن سکتا، سب کے قد بونوں کی طرح رہتے ہیں۔اب سوال یہ ہے تو کیا نواز شریف صاحب اس وقت واپس آکر اپنی پارٹی کو سنبھال سکتے ہیں کیونکہ اب نوبت ییاں تک آگئی ہے کہ ن لیگ کو وہاں پر با قاعدہ ایک کامیڈی شو کرنا پڑ گیا۔
اللہ رکھا پیپسی ایک بڑے اچھے فنکار ہیں کامیڈین ہیں.اور شادی بیاہ سمیت مختلف تقاریب کے پر بھی وہ ون مین شو کرتے ہیں
ڈانس بہت اچھا کرتے ہیں کامیڈی بہت اچھی کرتے ہیں اور پیروڈی سونگ گاتے ہیں تو اب صورتحال یہ ہے کہ ان کو بلانا پڑگیا لوگوں کو انٹرٹین کرنے کے لئے تاکہ لوگ وہاں پر موجود رہیں ۔اسکے علاوہ انکی اپنی باقی جوحمائتی جماعتیں ہیں ان سب کو کالز کی گئیں،مختلف مدارس کے طلباء کو بلایا گیا، بسیں بھر بھر کر لائی گئیں اور بسوں کو قذافی اسٹیڈیم کے باہرکھڑا کیا گیا اور وہاں سے لوگ پیدل لبرٹی چوک پہنچے، اور بڑی ہی مشکل سے گزارا کیا گیا۔
خیر بات کرتے ہیں کچھ دوسرے معامالات کی جنرل باجوہ کے توسیع کے حوالے سے باتیں کی جاتی ہیں ۔کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ جنرل باجوہ توسیع نہیں لیں گے جبکہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ موجود حکومت جنرل باجوہ کو توسیع دینا چاہتی ہے۔جبکہ ایک حلقے کا یہ بھی خیال ہے کہ اپنی مرضی کا آرمی چیف تعینات کیا جائے گا۔اس حوالے سے بہتر تو یہ ہے کہ جہاں ایسی حکومت کہ جسے لوگ امپورٹد حکومت کہہ رہے ہوں۔جس پر منی لانڈرنگ ،بے پناہ کرپشن اورایسی قیات کے کہ جو ملک سے فرار ہو،جس حکومت کو لوگ بیرونی مداخلت کے نتیجے میں بننے والی حکومت قراردیتے ہوں تو ایسی متنازعہ حکومت سے ایسے اہم فیصلے نہیں کروانے چاہیں ۔کیونکہ ایسے اہم فیصلوں پر عوام سوال اٹھائیں گے ۔
ایک اور اہم خبر یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے بیرون پاکستان میں اپنے قیمتی اثاثوں کو فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اور کابینہ نے اسکی منظوری بھی دے دی ہے اور یہ منظوری اس انداز میں دی گئی ہے کہ بعد ازاں اس فروخت کے بارے میں کوئی پوچھ بھی نہیں سکے گا نہ ہی انکی فروخت پر کوئی سوال اٹھا سکے گا ۔باالفاظ دیگر حکومت جو چاہے بیچ دے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا