آج کل اسرائیل سے متعلق پاکستانی وفد کی اسرائیل کا دورہ کرنے کے خبریں زبان زدِ عام ہیں۔بیشتر پاکستانیوں کو صحیح معلومات نہ ہونے کیوجہ سے یہ بات بھی کبھی کبھی گردش میں آتی ہے کہ آخر اسرائیل کو تسلیم کرنے میں ہرج ہی کیا ہے۔
میں ابھی فیس بک پر بیٹھا تھا کہ ایک صاحب نے بھی اپنی ایک پوسٹ میں یہی سوال پوچھا تھا کہ بھئی آخر اسرائیل کو تسلیم کرلینے میں کیا مضائقہ ہے۔
مندرجہ ذیل باقی تحریر وہی کمنٹ ہے کہ جو میں نے انکی پوسٹ پر کیا۔
اسرائیل کو تسلیم نہ کیا جانے بارے قباحتوں بارے مختصر اور سادہ سا جواب یہ ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرلینے میں
ہرج یہ ہے کہ اگر پاکستان میں ہندوستانی آکر آباد ہو جائیں اور کہیں کہ یہ پاکستان نہیں نیا ملک انڈیستان ہے تو جسطرح انکو تسلیم نہیں کیا جائے گا اسی طرح فلسطین پر قابض یہودیوں کو اسرائیل نامی بے بنیاد شہر کا شہری بھی تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔۔
اور یہودی وہ بد خصلت قوم ہے کہ انبیاء کرام کو تکالیف دینا ان کی توہین اور انکو شہید تک کردینا انکی تاریخ اور فطرت ہے۔۔
اللہ کی ان گنت رحمتوں کو بار بار ٹھکرانے اورنافرمانیوں کے باعث اللہ نے انکو دنیا میں ذلیل و خوار اور بے وطن کررکھا ہے۔۔
ان پر بے وطنی کا عذاب اللہ نے مسلط کیا ہے کہ انکا کوئی وطن ہو ہی نہیں سکتا ۔۔
اب ایسے لوگوں کے فلسطین جیسی ارضِ مقدس پر زبردستی قبضہ کو اسرائیل نامی وطن تسلیم کرلینا گویا اللہ پاک کے مقابل آنے کے مترادف ہے۔۔۔
گناہِ عظیم ہے۔۔۔۔
یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کو کوئی ملک تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔
لیکن دولت و حرص و ہوس کے بچاری رذیل و غلیظ نام نہاد مسلمان عرب حکمرانوں نے شیطان کے کہنے پر اسرائیل کو تسلیم کیا ہے اور یہ وہ وقت ہے کہ جسکے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرما دیا تھا کہ عربوں کے لیے تباہی ہے۔۔۔
واضح رہے کہ مسلمانوں کے لیے نہیں عربوں کے لیے۔۔۔
اور جن گدھوں نے اسکو تسلیم کیا ہے اسکے بعد وہی یہودی انہی کے ملک پر رفتہ رفتہ قابض بھی ہورہے ہیں مگر اندھوں کو دکھائی نہیں دے رہا۔۔