حدیث میں آتا ہے کہ شیطان نا محرم کو تمہارے ذہنوں میں حسین بنا کر پیش کرتا ہے۔یعنی وہ اتنی خوبصورت ہوتی نہیں ہے جتنی خوبصورت کر کے سامنے پیش کرتاہے۔ حتی کہ انسان تخیلاتی طور پر اسکی خوبصورتی سے بری طرح متاثر ہورہا ہوتا ہے،کہتا ہے سبحان اللہ کیا بہترین فطرت ہے اسکی اور کس قدر حسین ہے یہ، خوبصورت ہے، کیا ہی اچھی ہے ،یہاں تک کہ وہ آپ کے دل میں اس کے لیے پیار محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ اور آپ اس سے ملاقات کے لیے بے چین ہو جاتے ہیں۔ہمارے پاس کانسلنگ کے لیے لڑکے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا ارادہ نہیں تھا لیکن حالات ایسے بنتے چلے گئے کہ ہم سے یہ گناہ ہوگیا اور اب کیا کریں ،کیا اللہ معاف کرے گا.کیونکہ شیطان انکے ذہن میں یہ بھی ڈالتا ہے کہ تم نے اس کے ساتھ اتنا بڑا گناہ کر لیا ہے تو کیا اب تم اسے یوں ہی چھوڑ دوگے۔انکے ذہنوں میں شیطان یہاں تک باتیں ڈالتا ہے کہ یہ تو اتنا بڑا گناہ ہے کہ یہ تو اللہ تعالی معاف نہیں کرے گا تو کس طرح رب کے سامنے معافی مانگو گے۔ کیونکہ تم نے تو یہ عہد کیا تھا کہ تم یہ گناہ نہیں کرو گے۔
دوستو خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ شیطان اس طرح سے انسان کو اللہ سے بھی نا امید کرتا ہے حضرت آدم علیہ السلام سے بھی جب لغزش ہوئی تو انہوں نے کہا تھا کہ ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفر لنا وترحمنا لنکونن من الخاسرین ۔پھر اللہ نے بھی انکی توبہ کو قبول کیا ۔تو اس کے بعد شیطان نے بھی یہ ارادہ کیا کہ آج کے بعد میں انسان سے گناہ بھی کرواں گااور کہوں گا کہ تم اس منہ توبہ کرو گے۔نو سو چوہے کھا کے بلی حج کو چلی۔۔ یہ بات جو ہے نا کہ اللہ سے نا امید کر دینا یہ درحقیقت شیطان لعین کا بڑا زبر دست حملہ ہے ،شیطان اسکے ذریعے انسان کو توبہ بھی نہیں کرنے دیتا ۔ اسلیے یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ہم نے شیطان کی اس چال سے کیسے محفوظ رہنا ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ جب انسان ایک گناہ کرتا ہے تو اسکے دل پر ایک دھبہ لگ جاتا ہے اور جب وہ بار بار گناہ کرتا ہی رہتا ہے تو اسکے دھبوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ اسکا سارا دل کالا سیاہ ہو جاتا ہیاور اس کو پھر ان باتوں کی سمجھ نہیں آتی۔ وہ قرآن پڑھتاہے تو اسکو رونا نہیں آتا پھر نماز میں کھڑا ہوتا ہے اس کا فوکس ہی نہیں بنتا۔ کوئی لیکچر سنتا ہے تو لوگ رو رہے ہوتے ہیں لیکن اسکو رونا نہیں آتا وہ سوچتاہے کہ مجھے کیا مسئلہ ہے.مجھے پرکوئی چیز اثر ہی نہیں کرتی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ گناہوں نے اس کو جکڑا ہوا ہے.یہ بندہ ایسے ہے جیسے لوہے کی زنجیروں نے اس کو بری طرح جکڑا ہوا ہے اوراسکو مسجد ۔جانے ہی نہیں دیتی.چاہتا تو ہے لیکن اسکو یہ زنجیریں کہیں جانے ہی نہیں دیتیں ،یہ گناہوں کی زنجیریں اسکو لپٹی ہوئی ہیں یہ حالت ہوتی ہے کہ لوگ رو پڑتے ہیں لوگوں کی سسکیاں نکل رہی ہوتی ہیں۔لیکن انسان سوچتا ہے کیا کتنا عرصہ ہوگیا مجھ سے نماز میں فوکس ہی نہیں ہوتا۔وہ چاہنے کے باوجود ذہنی انتشار کا شکار ہو جاتا ہے ۔وہ حیران پریشان ہوتا ہے اس کی وجہ سمجھ لیں کہ ہمارے گناہ ہیں۔ اگر وہ اپنے گناہ چھوڑ دے اور سچی توبہ کرلے تووہ محسوس کرے گا کہ اسکا دل عبادت میں لگنا شروع ہو جائے گا.مشہور کہاوت ہے کہ پیسے سے زیادہ پیسہ آتا ہے اسی طرح چھوٹے چھوٹے گناہوں سے بڑے بڑے گناہ زندگیوں میں آنا شروع ہو جاتے ہیں۔
جتنا انسان گناہ کرتا جا رہا ہوتا ہے تو اس سے مزید گناہ آتے چلے جاتے ہیں اور اگر انسان نیکیاں کرتا جاتا ہے تو اسکو مزید نیکیوں کی توفیق ملتی رہتی ہے۔ہر انسان کے ساتھ ایک قرین بھی پیدا کیا گیا ہے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی کے پاس انکا قرین حاضر ہو گیا جوکہ بہت زیادہ کمزور تھا،انہوں نے پوچھا کہ تمھیں کیا ہو گیا ہے تم اتنے کمزور کیوں ہو گئے ہو.تو اس نے کہا کہ آپ کی عبادات نے مجھے اتنا کمزور کر دیا.اچھی طرح جان لیجیے کہ جتنا انسان کی عبادت زیادہ ہونگی توجو شیطان ہے جو کہ ہر انسان کے ساتھ ہوتا ہے
وہ اتنا ہی کمزور ہوتا چلا جاتا ہے لیکن اگر انسان کی عبادات کم ہو جائیں تو اسکا شیطان اس حد تک پاورفل ہو جاتا ہے کہ وہ انسان کو باقاعدہ حکم دینے لگتا ہے قران مجید میں ہے کہ یامرکم بالفحشا ،،وہ پھر وسوسہ نہیں ڈالتا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اسکو باقاعدہ حکم دیتا ہے کہ یہ کام کرو،کئی دوست بتاتے ہیں کہ وہ نہیں جانا چاہتے لیکن خودبخود مجبور ہوکر وہاں پہنچ جاتے ہیں ، لیپ ٹاپ بند کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں مگر ان سے بند نہیں ہوتا۔
نفسانی خواہشات اس حد تک اس پر قابو پا لیتی ہیں کہ انسان ان خواہشات کے جال میں جکڑتا ہی چلا جاتا ہے۔لیکن اللہ فرماتا ہے کہ میرے جو بندے ہیں ان پر تمہارا کوئی بس نہیں چلتا۔ تمہارا حکم نہیں چلتا۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جو خود کو روکے رکھتے ہیں اب یہ خود انسان کو سوچنا چاہیے کہ کیا مجھے ابھی رک کر آگے ایک چیمپین کیطرح رہنا ہے یا پھر ابھی سب کچھ کرنے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ندامت کیساتھ رہناہے ۔ہر بندے کو چاہیے کہ وہ خود اپنے کردار اور اعمال کا جائزہ لے کہ مجھے کہاں رکنا چاہیے اور کیا کیا نہیں کرنا چاہیے۔اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا کہ ناحق کسی کو قتل مت کرو ،یہاں ایک اور باریک اور لطیف نکتہ قابل غور ہے کہ قتل سے مراد دوسرے کا قتل ہی نہیں ہے بلکہ بعض اوقات انسان خود اپنے آپ کو بھی قتل کرتا جارہا ہوتا ہے لیکن اسکو پتہ ہی نہیں ہوتا،کیونکہ ایک ہوتاہے جسمانی قتل اور ایک ہوتا ہے روحانی قتل ،.۔
غور کرنے کے بات ہے کہ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو کہ چل پھر رہے ہوتے ہیں لیکن اندر سے وہ مرچکے ہوتے ہیں،بڑے بڑے نامور پاپ سٹآرز گلوکاروں کو دیکھ لیں اداکاروں کو دیکھ لیں لوگ ان کو چھونے کے لیے اور انکے ساتھ سیلفی لینے کے لیے مرے جارہے ہوتے ہیں لیکن وہ خود کو شراب اور دیگر گناہوں میں ڈبو ڈبو کر خود کو قتل کر رہے ہوتے ہیں،انکے اندر انکا اپنا آپ مر چکا ہوتا ہے۔انکو اپنی ہی زندگی کا مقصد سمجھ نہیں آرہا ہوتا۔ اور جب اندر سے انسان مر چکا ہوں پھر اس کے پاس جتنا مرضی پیسہ آجائے وہ چاہے گولڈ پلیٹڈ واش روم اور سونے کے بنے کموڈ استعمال کر رہا ہواسکی زندگی بے چین ہی رہتی ہے اور اسکو زندگی کا مزہ نہیں آتا ۔لیکن اگروہ اندر سے زندہ ہے تو پھر بھلے اسکو کھانے کے لیے صرف ایک کھجور ہی ملے مگر اسکی زندگی پر اطمینان اور شاندار ہوتی ہے۔