کوئی بھی ایک گناہ جان بوجھ کر مستقل کرتے رہیں،صرف ایک گناہ کو مستقلاٰ کرتے رہیں باقی نناوے فیصد عبادت ہی کرتے رہیں مگر اللہ کی حرام کردہ کسی بھی
ایک حرام شئے کو اپنے لیے حلال ٹھہرا لیا، شعوری طور پر آزادی کیساتھ اس گناہ پر ڈیرے جما دیے تو وہ ایک گناہ پوری زندگی کے عبادت کو زیرو سے ضرب دیکر اس عبادت کو بھی زیرو کر دیگا۔
اگر کوئی گناہ غیر شعوری طور پر ہو گیا مثلاکسی محفل میں تھے اور وقتی طوفان سے جذبات میں آکرکوئی گناہ کر بیٹھے،یا غلطی سے نسیان ہو گیا اور بھول کر گناہ کر بیٹھے مگر فورا سنبھل گئے لیکن اگر
کسی ایک بھی حرام شئے کو اپنے ذات پر حلال قراردیکر اسکو کرتے ہی چلے گئے تو قرآن میں اس حالت پر آگ کی وعید سنائی گئی ہے۔
ڈاکٹر اسرار احمد اسکو ایک مثال سے واضح کرتے ہیں وہ کہتے تھےکہ وہ میڈیکل کالج میں زیر تعلیم تھے اور سائیکل پر کالج جاتے تھے ایک مرتبہ کالج جاتے ہوئے پھسلن کے باعث سائیکل سے پھسل گئے۔وہ کہتے ہیں
مجھے اس وقت اپنے گرنے کا علم ہوا کہ جب میں گر کر سنبھل چکا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں کہ انکے کرتے ہوئے احساس تک نہیں ہوتا کہ کیا کر رہے ہیں مگر جب ہوش آتا ہے
تب پتہ چلتا ہے ۔لیکن بہتر بھی یہی ہوتا ہے کہ ہوش میں آتے ہی توبہ کر لی جائے۔
اور توبہ کرنے والے کی توبہ سے اللہ کو بھی اسی طرح خوشی ہوتی ہے کہ گویا جیسے صحرا میں ایک شخص کا اونٹ گم ہو جائے جس پر تمام مال و متاع بھی جمع ہو اور پانی بھی ۔ پھر وہ بندہ جب تھک ہار کر
مایوس ہو کر موت کا انتظار کرنے لگے اور اسکی آنکھ لگ جائے مگر جب سو کر اٹھے تو اسی اونٹ کو اپنے سامنے پائے اور مارے خوشی کے اسکے مننہ سے یہ الفاظ نکلیں کہ اے اللہ میں تیرا رب ہوں اور تو میرا بندہ ہے ۔حلانکہ وہ
کہنا یہ چاہ رہا ہوتا ہے کہ اے اللہ تیرا شکر ہے اور میں تیرا بندہ ہوں اور تو میرا رب ہے۔ تو جتنی خوشی بندے کو اپنے اونٹ مل جانے پر ہوتی ہے اس سے زیادہ خوشی اللہ کو اپنے بندے کی کی گئی سچی توبہ سے
ہوتی ہے ۔
دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی ہمیں سچی توبہ کرنے اور اس پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین