قرآن کریم کی ایک بڑی معروف آیت ہے.کل نفس ذائقة الموت۔جسکا ترجمعہ ہے کہ ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔
ہمارے ہاں جب کوئی فوت ہو جائے یا اپنا رشتہ دار یا کوئی اور اس دنیا سے چلا جاتا ہے تو ہم اس آیت کو کثرت سے یاد کرتے ہیں۔اکثر قبرستان اگر آپ جائیں تو وہاں لکھا ہوتا ہے اسکے علاوہ بہت سی جنازہ گاہ ہیں وہاں یہ عبارت لکھی ہوتی ہے.اور نیچے اس کا ترجمہ ہوتا ہے.کہ ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے.
یاد رکھیے گا کہ قران کریم دنیا کی پہلی اور واحد کتاب ہے کہ جس میں ایک معنی کے لئے دو الفاظ نہیں۔یہاں تک کہ اگر زیر زبر کا فرق آ جائے یا پیش آجائے ،یا تنوین آ جائے تو معنی و مفہوم تبدیل ہو جاتا ہے ۔یہ بھی صرف قرآن مجید کا اعجاز ہے
ایک اہم بات ہمیشہ یاد رکھیے گا کہ جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ قرآن کریم میں ایک معنی کے لیے بھی دو الفاظ نہیں ہیں بلکہ زبر زیر سے بھی معنی اور مفہوم بدل جاتا ہے۔ قرآن میں دو الفاظ ہیںایک لفظ ہے لذت اور ایک لفظ ہے ذائقہ ۔اردو میں بھی انہیں یہ کہیں گے کہ لذت اور ذائقہ۔ یہ بڑی اہم ترین بات ہے کہ عربی زبان میں لذت اور ذائقہ میں کیا فرق ہوتا ہے۔قرآن کریم ان دونوں چیزوں کے مابین فرق کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ لذت اور ذائقہ میں کیا فرق ہے
مثال کے طور پر انگور ہے ، فطرت نے اسے پالا ہے فطرت ہی اس کو مینٹین کرتی ہے، اس کے اندر جو گلوکوز ہے جو مٹھاس ہے وہ کام فطرت کرتی ہے ۔
انگور کے انگور بننے میںانسان کا کوئی عمل یا اس کی کوئی دخل اندازی نہیں ہوتی۔ وہ فطرت نے ایک پیمانہ رکھا ہے اس انگور کے اندر،جسکی وجہ سے انگور کی بیل پر انگور ہی اگتے ہیں کچھ اور نہیں اگتے اور نہ وہ کچھ اور بنتا ہے نہ ہی وہ اپنے پیمانے سے نہ گھٹتا ہے نہ بڑھتا ہے۔اسکی لذت وہی ہوتی ہے جو کہ انگور کی ہونی چاہیے اس لیے جب اسکو کھاتے ہیںتو وہ مزید ہوتا ہے اس کی لذت ہوتی ہے.لیکن جب اسی انگور میں انسان اپنا دخل دیتا ہے اور انسانی عمل کی داخل اندازی ہوتی ہے اوراگر انسان اس کو بڑی خاص جگہ پرکچھ چیزیں ملا کر اسے زمین میں دبا دے تو پھر وہ انگور شراب بن جاتی ہے۔
اس میں لذت انگور کی ہوتی ہے لیکن ذائقہ شراب کاہوتا ہے.ذائقہ وہ عمل ہوتا ہے جس میں انسان کے عمل کا دخل ہوتا ہے۔ انسان کی جس کام میں مداخلت ہوتی ہے وہاںپر قرآن اس شئے کے لیے ذائقہ کا لفظ
استعمال کرتا ہے۔
اور جب کسی چیز کے اندر انسان کی مداخلت نہیں ہوتی جہاں پرصرف فطرت ہی اسکی پرورش کر رہی ہو تو اسکو لذت کہیں گے ۔
یہاں ایک بڑی ہی دلچسپ بات ہے اور ایک بہت بڑا راز ہے جو اللہ تعالی نے اس آیت کے اندر رکھا ہوا ہے ،تو جب یہ کہا جات ہے کہ ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے تو دراصل ہر پرسنالٹی کی موت کا ذائقہ دوسری پرسنیلٹی کی موت سے الگ ہوگا۔ ہر شخص کی پرسنالٹی دوسروں سے مختلف ہوتی ہے۔ میرے مرنے کا جو ذائقہ ہے یا جو میری پرسنالٹی ہے وہ الگ ہے آپ لوگوں کی الگ ہے ۔
قرآن مجید میں اس آیت کے لفظ کاماخذ ذوق ہے یعنی حروف تہجی کے مطابق پڑھیں تو ذ و ق ہے۔ آپ جب اردو میںدیکھیں گے تو آپ کو پتہ چلے گاعموماکہتے ہیں کہ فلاں شخص کو فلاںچیز کا ذوق ہے.فلا ںبڑا با ذوق ہے،یا فلاں بڑا بدذوق ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا جو ذوق ہے وہ آپ کا ذائقہ متعین کرتا ہے ۔اور اسی لیے کہا گیا ہے کہ کل نفس ذائقہ الموت.تو دراصل انسان کے جو ذوق اور شوق ہوتے ہیں وہی اسکی موت کے ذائقے کو متعین کرتے ہیں کہ آپ نے دنیا میں کن چیزوں کو اپنایا، اپنی دنیا میں اپنے افعال میں اپنے اعمال میں اپنی باتوں میں اپنی لذتوں میں آپ نے کن کن چیزوں کو اپنایا،توانسان کا جو ذوق ہے وہ دراصل انسان کی موت کا ذائقہ متعین کرتے ۔
تو اگر ہمیں اپنی زندگی میںقرآن کا ذوق پیدا ہو جائے قرآن کا شوق پیدا ہو جائے اور اچھے اعمال اور نیکیوں کا شوق پیدا ہو جائے تو ان شااللہ ہماری موت کا ذائقہ بھی خوشگوار ہوگا اور اگر خدانخواستہ برائیوں ،گناہوںاور بے حیائی و بے دینی کا ہی ذوق عمر بھر رہا تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ موت کا ذائقہ کیسا ہوگا۔
دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی ہمیں اپنے پسندیدہ راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین